
غلامی سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔۔ فکر اقبال سے ماخوذ
بشکریہ کاروان اقبال
موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
مکر و فنِ خواجگی کاش سمجھتا غلام!
اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام!
ایک موت تو وہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ "روح” انسان کے بدن سے اپنا تعلق منقطع کرلیتی ہے، لیکن خود زندہ رہتی ہے۔ اس طبعی موت کے علاوہ ایک موت اور بھی ہے جو اس سے زیادہ شدید ہے۔ اس کا نام "غلامی” ہے جس میں روح بدن سے تعلق تو منقطع نہیں کرتی لیکن خود مرجاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بظاہر انسان زندہ نظر آتا ہے لیکن دراصل وہ مُردوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔
ملوکیت (مغربی جمہوریت) کی کامیابی اور اسکی بقا کا راز یہ ہے کہ وہ خود بھی مکاری اور عیاری کے فن میں ید طولی رکھتی ہے۔ اور اس فن لطیف کے تمام ماہروں مثلآ سرمایہ داروں، جاگیر داروں، ملاؤں، اور پیروں کی سرپرستی بھی کرتی ہے۔ اور یہ تمام طبقات انسانوں کو غلام بنانے میں ملوکیت (مغربی جمہوریت) کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ بلکہ اس کار خیر میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
ان تمام مکر و فریب سے انسان اس وقت نکل سکتا ہے جب اس کی خودی پختہ ہو جائے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
علامہ صاحب کی رائے میں اگر کوئی قوم غلامی کی زنجیروں کو توڑنا چاہتی ہے تو اس کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع سے اپنی خودی کو پایۂ تکمیل تک پہنچا دے۔ پھر وہ قوم دنیا میں غلام نہیں رہ سکتی
ارمغانِ حجاز