top header add
kohsar adart

صحرائے تھر کی مشہور و مقبول لوک داستان ڈھولا مارو

تحریر : بهارومل امرانی سوٹہڑ

صحرائے تھر کی مشہور و مقبول لوک داستان ڈھولا مارو
بهارومل امرانی سوٹہڑ

صحرائے تھر کی لوک داستانوں میں سب سے زیادہ مشہور و مقبول "ڈھولا مارو” کی داستان ہے۔ ریت کے ٹیلوں پر جب بھی بڑے بوڑھوں کی مجلس ہوتی ہے، تب بات سے بات نکلتے ہوئے ڈھولا مارو کے ایک دو دوہوں تک ضرور پہنچتی ہے۔

ڈھولا اور مارُو کی محبت کی کہانی مختلف روایتوں میں بیان کی جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق نرور کے علاقے میں قحط پڑنے پر، راجا نل اور اس کی رانی پنگل کے علاقے میں گئے تھے۔ کچھ سُگھڑ کہتے ہیں کہ راجا نل اور پنگل کا راجا ایک دوسرے کے حریف تھے، ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ ایک بار دونوں جنگ کے بجائے آپسی معاملات کا حل نکالنے کے لیے ایک بڑے پیپل کے نیچے گفت و شنید اور مفاہمت کے لیے بیٹھے۔ وہاں باتوں باتوں میں وہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ دونوں نے اپنی دوستی کو رشتے داری میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ راجہ نل کے تین سالہ بیٹے سالخ کمار عرف ڈھولا کی شادی پِنگل کی ڈیڑھ سالہ بیٹی مارو سے کروا دی گئی۔ "چونری کے پھیرے” بھی ہوئے مگر رخصتی دونوں کے بالغ ہونے تک ملتوی کر دی گئی ۔

پنگل میں کچھ وقت ٹھہرنے کے بعد راجا نل اپنے دیس لوٹ آیا، چند سال بعد راجا نل کی کسی دوسرے راجا سے لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی میں راجا نل مارا گیا۔

ڈھولا جب نوجوان ہوا تو اسے یاد بھی نہ رہا کہ وہ پہلے ہی سے شادی شدہ ہے اور اس کی دلھن "مارو” پونگل میں اس کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے۔ نرور گڈھ اور پونگل کے درمیان بڑا فاصلہ تھا لہذا دونوں گھرانوں کو ایک دوسرے کی کوئی خیر خبر نہیں ملتی تھی۔ بے خبری کے اس عالم میں سالخ کمار نے دوسری شادی راج کماری مالوانی سے کر لی۔

اُدھر مارو کیا جوان ہوئی کہ مارو کے حسن وجمال کی دُھوم ریگستان کے دور دراز کے علاقوں میں پھیل گئی۔ مارو کے لیے روز شہزادوں کے رشتے پونگل کے پاس آنے لگ گئے مگر ہر ایک کو راجا پونگل نےجواب دیا کہ راجکماری مارُو پہلے سے شادی شدہ ہے۔ پونگل انتظار کر رہا تھا کہ جلد نرور سے سالخ کمار آئے گا۔

اتنظار میں بہت عرصہ گزر گیا۔ نرور سے نہ سالخ کمار آیا نہ کوئی سالخ کمار کا پیغام ملا، بالآخر راجا پنگل نے آنے کے لیے نرور پیغام بھجوایا۔ یہ پیغام اتفاق سے سالخ کمار عرف ڈھولے کی بیوی مالوانی کے ہاتھ لگ گیا، اس نے نہایت چالاکی سے قاصد کو مروا دیا۔ پھر مالوانی نے اس طرح کا انتظام کیا کہ جو بھی پونگل سے آتا تھا، اس کو ڈھولے تک پہنچنے نہیں دیتی تھی ۔ مالونی کو یقین تھا کہ اگر ڈھولا کو اپنی پہلی شادی یاد آ گئی تو وہ مجھے چھوڑ کر مارُو کے پیچھے چلا جائے گا، کیوں کہ وہ بہت حسین ہے۔ اس کے حسن کی تو بہت تعریف ہو رہی ہے۔

مارو ڈھولے کو دن رات یاد کر کے رونے لگی، مارو کی حالت دیکھ کر راجا پونگل بے چین ہونے لگا، پریشانی بڑھتی چلی گئی کہ آخر مسئلہ ہے کیا ؟ جو بھی قاصد نرور جاتا ہے وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ بہت کوششوں کے بعد چالاک ڈھولی کو تلاش کرکے نرور گڈھ بھیج دیا گیا۔ ڈھولی بہت سمجھ دار تھا۔ مالونی کی ساری رکاوٹیں توڑتے ہوئے نرور قلعے تک پہنچ گیا۔ اتفاق سے بارش آ گئی، ڈھولی نے محل کی دیوار کے قریب ایک درخت کے نیچے اپنا بستر لگالیا اور بارش میں راگ مارو اور ملہار گانا شروع کر دیا۔ ملہار راگ راج کمار کے کانوں پر پڑا تو وہ بہت غور سے سننے لگا۔۔ ڈھولی نے پھر مارو کا پیغام سنایا۔ جیسے ہی راج کمار نے دوہوں میں مارُو کا نام سنا تو اسے اپنی پہلی شادی یاد آگئی۔ صبح سالخ کمار عرف ڈھولے نے ڈھولی کو اپنے پاس منگوایا اور ڈھولی سے سب کچھ معلوم کیا۔ ڈھولی نے راج کماری کے حسن و جمال کا تذکرہ بہت ہی دل نشین انداز میں کیا ۔

ڈھولا مارو کی ایسی تعریف اور انتظار کی کیفیت کا سن کر، مارو کے پاس جانے کے لیے تیار ہو گیا، لیکن مالوانی نے روک دیا۔ ڈھولا جب بھی پونگل کے لیے تیار ہوتا ہر بار اسے مالوانی روک دیتی تھی۔ آخر ایک دن ڈھولا بہت تیز اونٹ پر سوار ہوا اور پنگل پہنچ گیا۔ مارو اپنے ڈھولے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ پنگل میں ڈھولے کا شان دار استقبال ہوا۔ دونوں نے پنگل میں کئی دن گزارے۔ پھر ڈھولے نے مارو کے ساتھ نرور جانے کے لیے راجا پونگل سے اجازت لی اور طویل سفر پر روانہ ہوا۔

قصہ گو کہتے ہیں کہ راستے میں انھوں نے سندھ کے حکم ران عمر سومرو کی سازشوں کا سامنا کیا، مارو کو ایک سانپ نے بھی ڈس لیا تھا، ان سب تکلیفوں سے گزر کر ڈھولا اور مارو نرور پہنچ ہی گئے۔

سندھ کے حکم ران سومرو خاندان میں دو عمر بادشاہوں کا ذکر ملتا ہے۔ ایک عمر سومرو اول ( ۱۱۸۰ع ) دوسرا عمر سومرو دوئم (۱۳۹۰)، عمر دوئم عمرکوٹ کا حاکم تھا۔

سندھی ادب کے نقاد عمر دوئم سے دو لوک کہانیاں عمر مارئی اور عمر گنگا منسوب کرتے ہیں۔ ڈھولا مارو کی داستان سے وابستہ عمر سومرو اول ہے یا عمر دوئم ؟ ہو سکتا ہے عمر سومرو بعد میں الحاقی کردار کے طور پر شامل ہو گیا ہو۔ نرور گڈھ کس علاقے میں ہے؟ عمرکوٹ کے نام ور محقق معمور یوسفانی نے نرور کا علاقہ عمرکوٹ اور سامارو کے قریب بتایا ہے۔ ان سب سوالوں پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

شاہ لطیف کے ایک رسالے میں سُر ڈھولا مارو ملتا ہے۔
اتر واء کھوندی پہلی موسم مینہہ،
بالپن جو نینہہ، ڈھولا! جم وسارئیں۔
(شمال کی ہوا اور آسمانی بجلی کے ساتھ برستی ہوئی ساون کی پہلی بارش جیسی محبت کو اے ڈھولا کبھی بھول نہ جانا )

اتر ڈساں آونیاں، ڈکھن ساونیاں،
ڈھولو نرور سیرییں، دھن بیکر کڑیاں،
پچھو کونجڑیاں، کون ہیارے سجنیں۔
(شمال سے بجلی چمکتی آتی ہے اور جنوب میں بارش برساتی ہے، ڈھولو نرور سیرییں اور اس کی مارو دور صحرا کے بیکر گھاس پر انتظار کر رہی ہے، اے کونجیاں! ساجن سے پوچھو کس کے پیار نہ قابو کر دیا ہے۔ )

مارو ایک راگ بھی ہے۔ ریگستانی نقاد کہتے ہیں کہ ڈھولا مارو کے دوہے کوی کلال کی تخلیق ہیں۔ کوی کلال کے حالاتِ زندگی کے متعلق ادبی تاریخ خاموش ہے، کوی کلال کے ایک دوہے کا مصرع ہے کہ :
پندرے سے تیسے برس، کتھا کہی گن جان۔۔۔
(پندرہ سو تیس میں یہ کہانی کہی گئی۔)

سورٹھیو دوہو بھلو، بھلی مرون ری بات،
جوبھن چھانئی دھن بھلی تاراں بھری رات۔
ترجمہ:
جس طرح دوہوں میں سورٹھی دوہا اچھا ہے اور باتوں میں ڈھولا مارو کی بات خوب صورت ہے، اسی طرح عورت اپنے بھرپور جوبھن میں دل کش لگتی ہے جیسے تاروں بھری رات ہوتی ہے۔

سورٹھیو دوہو بھلو، کپڑو بھلو سفیت،
ٹھاکریو ڈاتار بھلو، گھوڑو بھلو کمیت۔
ترجمہ:
جس طرح دوہوں میں سورٹھی دوہا خوب صورت ہے اور کپڑوں میں سفید رنگ دل کش ہے، اسی طرح ٹھاکروں میں سخی ٹھاکر اچھا لگتا ہے، جیسے گھوڑو میں کمیت ہوتا ہے۔

نرور نل راجا تنو، ڈھولیا کنور انوپ،
رانی رائے پنگل تنی، ریجھی دیکھے روپ۔
ترجمہ:
نرور کے راجا نل کے بیٹے ڈھولے کا حسن بے مثال ہے، رائے پنگل کی رانی ڈھولے کو دیکھ کر بڑی خوش ہوئی۔

پنگل پتری، پدمنی، مارونی تین نام ،
جوڑی جوئے چارئیہ دھن ودھاتا کام۔
راجہ پنگل کی بیٹی کے تین نام پنگل پتری، پدمنی اور مارونی نام ہیں، راجا پنگل کی رانی نے دھولے اور مارو کی جوڑی دیکھ کر کہا واھ قدرت نے کیسی جوڑی بنائی ہے۔

نل پنگل بھیڑا ہوئا، پارس پیپل ہیٹھ،
جڈ کا بولا بولیا، ڈھولو مارو پیٹ۔
ترجمہ:
راجہ نل اور پنگل نے پارس پیپل کے نیچے بیٹھ کر سگائی کی زبان جب دھولو مارو دونوں اپنی اپنی ماں کے حمل میں تھے۔

نرور دیس سہامنو ،جے جائو پنتھیا،
مارو تنا سدیسڑا دھولے نوں کہیا۔
ترجمہ:
اے راہی! نرور بہت خوب صورت ہے۔ تیرا نرور کے علاقے میں جانا ہو تو میرا ایک پیغام ڈھولے کو دینا۔

ڈھاڈھی ہیک سندیسڑو ڈھولے لگ لے جائے،
جوبھن چمپا موریو ،کلی چونٹنے آئے۔
ترجمہ:
اے منگتے ! میرا ایک سندیس ڈھولے کے پاس لے جانا اور اسے کہنا کہ میرے جوبھن کی چمپا کِھل اٹھی ہے تم کلیاں چننے کے لیے آجاؤ۔

ڈھاڈھی ہیک سندیسڑو ڈھولے لگ لے جائے،
کن پکو کرسن ھوئے بھوگ لیو گھر آئے،
ترجمہ:
اے گائک! میرا پیغام ڈھولے کے پاس لے جانا اور کہنا کہ جوبھن کی فصل تیار ہو چکی ہے، تم آؤ اور اپنے ہاتھوں سے کٹائی کر کے اس دھان کا مزا لو ۔

ڈھاڈھی ہیک سندیسڑو ڈھولے لگ لے جائے،
جوون پھٹی تلاوڑی پاڑ باندھنے آئے۔
ترجمہ:
اے گائک میرا پیغام ڈھولے کے پاس لے جانا اور کہنا جوبھن کی تلیا امنڈ رہی ہے، تم آؤ اور اپنے ہاتھوں سے بند باندھو.

پنتھی ہیک سندیسڑو ڈھولے لگ لے جائے،
ورھ مادھوھ جاگیو، اگن بجھاؤ آیے۔
ترجمہ:
اے مسافر میرا پیغام ڈھولے کے پاس لے جانا اور کہنا میرے اندر برھ کی آگ لگی ہوئی ہے، تم آؤ اور برھ کی آگ بجھا کے جاؤ.
پنتھی ہیک سندیسو ڈھولے لگ لے جائے،
تن من اتر باڑیو، دکھن واجے آئے۔
ترجمہ:
اے مسافر! میرا پیغام ڈھولے کے پاس لے جانا اور کہنا میرے من اور جسم کو شمال کی ہوا نے جلا دیا ہے، تم جنوب کی ہوا بن کر آؤ۔

پنتھی ہیک سندیسڑو ڈھولے لگ لے جائے،
دن کمدانی کملنی، ششر بن اگ آئے۔
ترجمہ:
اے مسافر! میرا پیغام ڈھولے کے پاس لے جانا اور کہنا کنول جیسی مارو تیری جدائی میں مرجھا گئی ہے، تم چاند بن کر نکل آؤ۔

پنتھی ہیک سندیسڑو ڈھولے لگ لے جائے،
جوون سیر سمندرکا، رتن کادھ آئے۔
ترجمہ:
اے مسافر! میرا پیغام ڈھولے کے پاس لے جانا اور کہنا کہ اب جوبھن کے سمندر میں لہریں اٹھ رہی ہیں۔ تم آؤ سمندر کا منتھن کر کے رتن نکالو۔

چند مکھی، ہنس چلن، کومل دیرگھ کیس،
کنچن ورنی کامنی، ویگھا آؤ ملیس۔
ترجمہ:
اے ڈھولا! سونے جیسی مارو کا چاند جیسا چہرا، ہنس جیسی چال، نرم اور لمبے بال ہیں، تو جلدی آ کر اس سے ملو۔

مارو گھونھٹ ڈیکھتے، ایتا سہت پنند،
کیر بھمر کوکل کمل چندر کیند میند۔
ترجمہ:
اے ڈھولا مارو کو اگر گھونگٹ میں بھی دیکھ لے، تو تجھے طوطے بھنورے، کوئل، کنول چاند اور ہاتھی والی خوبیاں نظر آئیں گی۔

انگ ابھوکن اچھیہ تن سوول سگلائے،
مارو آنبا بور جم کر لگیہ کملائے۔
ترجمہ
اے ڈھولا ! مارو سیمیں بدن جس پر سفید رنگ کے گہنے ہیں ۔ آم کے بور جیسا نازک ہے جو ہاتھ لگنے سے کملا حاتا ہے۔

باب پیو نے ورہنی دونوں ایک سوبھاؤ،
جب ہی برسے گھن گھنو تب ہی کہے پریہاؤ۔
ترجمہ:
پپیہا اور برہن دونوں کا برتاؤ ایک جيسا ہے جب گھنگھور گھٹائیں برستی ہیں تب کہتے ہیں پی آؤ۔

اہر پیوہر دو نین میٹھا جیہا ماکھی،
ڈھولا ایوی مارو جانے میٹھی ڈاکھی۔
ترجمہ:
(اے ڈھولا ! مارو انگور کی طرح میٹھی ہے، مارو کے ہونٹ، زبان اور دو نین شہد ہیں۔

سندر سوون ورن تس، اھر التا رنگ،
کیہر لنکی، کین کٹ، کومل نیتر کرنگ۔
ترجمہ:
اے ڈھولا! مارو بے حد حسین ہے، مارو کا کندن جیسا رنگ ہے، تیندوے کی پتلی سی کمر اور ہرنوں جیسی آنکھیں ہیں۔

چند توں کن کھانڈیو مہے کھانڈی کرتار،
پونم پورو آؤ سی میں آؤتے آوتار۔
ترجمہ :
اے چاند! تجھے کس نے توڑا ہے ۔ مجھے تو مالک نے توڑ دیا ہے ۔ تم تو چودھویں شب کو مکمل ہو جاؤ گے مگر میں بد نصیب اس جنم میں کبھی مکمل ہو پاؤں گی !؟ میں اگلے جنم میں مکمل ہو پاؤں ۔

جب سوئوں تب جاگوئے جب جاگوں تب جائے،
مارو دھولیہ سانبھاریئے، ایسی رین کٹائے۔
ترجمہ:
مارو کہتی ہے جب سوتی ہوں تو ڈھولا خواب میں آ کر مجھے جگاتا ہے ۔ جب جاگتی ہوں تب چلا جاتا ہے ۔ ڈھولا تیرے فراق میں تجھے یاد کر کے اس طرح رات کاٹتی ہوں

رانی ساکھی ان تامنی، کا اج کرنی پنکھی،
اوے سرے، ہوں گھر اپنے، دونوں نا میلی انکھی۔
ترجمہ :
اے سکھی، رات تالاب کے اوپر کسی پنچھی نے شور کیا، نہ اس کی تالاب میں آنکھ لگی، نہ میری اپنے گھر میں ۔

کونجاں رات کریڑیو، ٹولی ٹولی تیس،
میں ستی ساجن ساریو، ارلی بھاگی ایس۔
ترجمہ :
اے سکھی، رات کو کونجیں کرلا رہی تھیں، ٹولی ٹولی میں تیس تھیں، میں نے اپنے ساجن کو یاد کیا، چھاتی سے چارپائی کی پائنتی کو توڑ دیا۔

بابل! تال پھڑائے دیئو، کہ کونجاں دیئو مروائے،
جب جاگوں جب ہیکلی، تو کونج رہی کرلائے۔
ترجمہ :
اے میرے بابل! یہ تالاب تڑوادیں، یا ان کونجوں کو مروادیں، کیونکہ میں جب جاگتی ہوں، تنہا ہوتی ہوں، تو کونجوں کی کراہیں سنائی دیتی ہیں۔ ساری رات ان کی کراہیں مجھ بِرہَن کا روگ بڑہائیں۔
مارو میں مانس نہیں، میں ہاں کونجڑیاں،
ڈھولے ڈینا سندیسڑا، مناں لکھ پنکھڑیاں۔
ترجمہ:
مارو! ہم انسان نہیں ہیں، ہم پنچھی ہیں، دھولے کے لیے پیغام ہمارے پروں اوپر لکھو، ہم پہنچا دیں گے۔

رات سارس بولیا، دریا پرلے دنگ،
سوتی ڈھولو ساریو، ارگت وھے گئی انگ۔
ترجمہ:
رات دریا کے دوسرے کنارے پرسارس بولے، سارس کے جوڑے کی آواز سن کر سوتے وقت مجھے ڈھولا یاد آگیا۔ شب بھر درد و کرب سے گزرتے ہوئے یوں لگا جیسے میرے جسم کو آری نے چِیر دیا ہو۔

اتر ڈس اوجیس بھیو جن چمکی بیجڑیاں،
ماروئل پاسو پھیریو او چمکی پاسڑیاں۔
ترجمہ:
شمال کی جانب سے شعاع پُھوٹی۔میں نے سمجھا آسمانی روشنی ہوئی ہے لیکن معلوم کرنے پر پتا چلا کہ او مارو نے پہلو بدلا تھا اور اس کی پسلیاں چمکی تھیں

کھیجڑ رونکھ بھرٹ کھڑ، تھڑیاں پیڑا توس،
ڈھولا ! تمینی ماروئل، ہتھ اوہنی اوس۔
ترجمہ:
صحرا میں جہاں سینگر کے درخت، بھرٹ کی گھاس اور ٹِیلوں کے بیچ میں پیلے رنگ کے ہنزل بکھرے ہوئے ہیں، اے ڈھولا وہاں تیری مارو اپنے نوخیز جوبن پر پہنچی ہے

مارو دھن مرکو کیو ،تھے سنجو ڈھولا کنت،
چھوں ڈس میں چمکو بھیو، بیج نہیں ڈانت۔
ترجمہ:
اے ڈھولا تیری مارو مسکرائی تو چاروں سمتیں روشن ہو گئیں، جیسے آسمانی بجلی چمکی ہو۔ مارو کے دانت ایسے چمکیلے ہیں۔

اکتھ کہانی پریم کی مکھ سے کہی نا جا،
گونگے کا سپنا بھیا، سمر سمر پچھتا،
ترجمہ:
اے سکھی، پیار کی کہانی بڑی مشکل ہوتی ہے، زبان سے کہی جا نہیں سکتی، گونگے کے خواب کی طرح ہے، جو کسی کو بتا نہیں سکتا، یاد کر کے پچھتاتا ہے۔

دوجان بیان نا سنبھڑے، منان نا وسارے،
کونجان لال بچاں جوں، کھن کھن چتارے۔
ترجمہ:
برے لوگوں کی باتوں کو تم سننا، مجھے کبھی نہیں بھولنا، کونجی کے بچوں کی مانند پل پل مجھے یاد کرنا۔

ڈھولا تین سین ڈھور بھلا ،چرین جنگل رو گھاس،
دن آنھوے سانجھ پڑے، کرین گھران ری آس۔
ترجمہ :
اے ڈھولا ! تم سے تو وہ مویشی بھلے ہیں جو دن بھر جنگل کی گھاس چرتے ہیں مگر دن ڈھلنے کے بعد سانجھ سمے اپنے گھروں طرف لوٹ آتے ہیں

پاو پدم اڈی لسن ڈنت گلابی جان،
ڈھولا تمینی ماروئل کسیوڑو کیکان۔
ترجمہ:
پیر لہسن کے جوے جیسے اور دانت خوب صورت گلابی ہیں۔ اے ڈھولا تیری مارو کسی ہوئی زین جیسی ہے۔

تھن سینگی نک سیپلی ڈنت گلابی پھل،
جگ سارو پھر جویو ڈھولا تریا نا مارو تل۔
ترجمہ:
اے ڈھولا مارو کی چھاتی سینگ کی طرج نوکیلی، دانت گلابی پھولوں جیسے ہیں ۔ میں نے ڈھولا سارا جگ گھوم کے دیکھ لیا لیکن کہیں بھی مجھے مارو جیسی حسین عورت دکھائی نہیں دی۔

ہنس چلن کد لیھ جنگھ کٹ کیھر جم کھین،
مکھ سہر کھنجر نین کچھ شری پھل کنٹھ وین۔
ترجمہ:
مارو کی چال ہنس جیسی ہے اور ٹانگیں کیوڑے جیسی، کمر شیر کی مانند پتلی، پیشانی چاند جیسی، نین آہوچشم، سینہ ناریل کی طرح اور بولی بِین کے سُر جیسی ہے۔

اک پن سے پتلی دھوبو دھان نہ کھائے،
ڈھولا ایسی مارو، کیم وساری جائے۔
ترجمہ:
مارُو آک کے پتے سے بھی پتلی ہے، وہ مُٹھی بھر دھان کھاتی ہے،
اے ڈھولا ! ایسی مارُو کو بُھلایا نہیں جاسکتا۔

انسہ ارکھ ماروی سوتی سیج وچھاء،
سالھ کنور سپنے ملیا، جاگ تسا کھاء
ترجمہ:
مارو کی حساسیت کا یہ عالم ہے، ایک رات وہ سیج پر سوئی، اور ڈھولا اسے خواب میں ملا، اور وہ آھ بھر کر رو پڑی۔

تھل بھورا بن جھنکرا نہیں سچ پنڈجائی،
گڑے سگندھی مارو مہکی سہہ نبڑ رائی۔
ترجمہ :
زمین بھوری ہے بن جھنکاڑ ہے وہاں چمپا نہیں ہے وہاں تو مارو کے حسن سے ہی سارا دشت مہکتا ہے۔

ڈھولو ہالواں کرے، دھن ہالوا نہ ڈے،
جھب جھب جوئے پاگراں، ٹب ٹب نین بھرے۔
ترجمہ:
ڈھولا مارو کی طرف جانا چاہتا ہے لیکن بیوی (مالنی) جانے نہیں دیتی ڈھولے کے پیروں کی طرف اداسی سے دیکھ کر اشک بہانے لگتی ہے ۔

کالے کنٹھ بادلیا، ورس جہ میلہئہ واء،
بالم بن لاگے بوندڑی، جان کٹاری گھاء۔
ترجمہ:
کالے کناروں والے بادل ساون کی ہوا بھیج رہی ہے، بارش کی بوندیں محبوب کے بغیر کٹاری کی طرح گھاؤ دے رہی ہیں۔

مھ موران منڈپ کرئے، منھتھ انگ نہ رہائے،
ہوں ایکلڑی کیم رہاں، میہہ پدھاریئے ہائے۔
ترجمہ:
ساون کی رت میں مور ناچ رہے ہیں، خواہشیں جسم میں اچھل رہی ہیں۔ اے میری قسمت! برسات آ رہی ہے، اور میرا پریتم جا رہا ہے، تم بتاؤں ، میں اکیلی کس طرح رہوں گی؟

ڈن چھوٹے، موٹی رین، تھاڈا نیر پون،
تن رت نیھ نہ چھانڈیئے، ھے بالہہ بڈھن۔
ترجمہ:
جس رت میں دن چھوٹے، راتیں لمبی اور سرد ہوا چل رہی ہے۔ اے میرے بالم اسی رت میں ایسی رت میں محبوب کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔

اتراج سی اتریئہ، پڑسی واہلیاں،
او اورے پرین راکھیئے، مندھاں کاہلیاں۔
ترجمہ:
آج شمال کی ایسی ٹھنڈی ہوا چلی ہے، جیسے سردی کی ندیاں گئیں، ایسے موسم میں بالم جی بیوی بیچاری کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہیئے۔

ڈھولا چلا گیا سکھی، جس کی تھی داس،
دہی ولویامکھن لیا، مجھ کوں کر گیا چھاس۔
ترجمہ:
اے سکھیو! وہ میرا ڈھولا چلا گیا ہے، جس کی میں داسی تھی، اس نے مجھے دہی کی طرح بلویا، مکھن لے گیا، اور مجھے چھاچھ کر کے چھوڑ گیا۔

بابہیا نل پنکھیا! واڈھت دئہ دئہ لون،
پیو میرا، میں پیو کی، توں پیو کہیس کون۔
ترجمہ:
اے نیلے پروں والا پپہییا! تو مجھے کاٹ کر نمک چھڑک رہا ہے، پریتم میرا ہے، میں پریتم کی ہوں، تو پی پی کہنے والا کون ہے ۔

ڈینہن گیو ڈھڑے ڈونگرے وہیا گیا ونے،
کاڑی کھائی کرہا تنا رولیو تیں رن تھڑے۔
ترجمہ:
سورج پہاڑوں کے پیچھے غروب ہوکر، نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے اور بَیا نے درختوں پر جاکر بسیرا کیا ہے۔
اے اونٹ !تجھے کالا سانپ ڈسے تُو نے مجھے ریتیلے ٹیلوں اور صحرا میں بھٹکادیا ہے۔

کاٹھی باندھو پاگڑی، ڈھیلی چھڈ مہار،
کاڈھ پگاں را ٹانکڑا ، پنگل کراں جہار۔
ترجمہ:
اے ڈھولا تم اپنے سر پر دستار مضبوطی سے باندھو اور میری مہار ڈھیلی چھوڑ دو، میرے پیروں سے کیلیں نکالو ( جو مالنی نے لگائی ہیں ) پھر ہم تیزی سے چلتے ہوئے پنگل میں سلام کریں گے۔

کھیجڑیو ڈھر ڈھکھڑو، کونٹ کاچی لوئے،
ہوں کھاتی ری دھوڑی، ڈھولا مارو محلے ھوئے۔
ترجمہ:
سینگر کے چھوٹے درخت کے نیچے کھیت میں چڑیاں اڑا رہی ہون، اے ڈھولا میں کھاتی کی بیٹی ہوں، مارو محلوں میں رہتی ہے ۔

کھیجڑ رونکھ بھرٹ کھڑ ، کونبھٹ کیر کنٹا،
ڈھولو پچھے دھن مارو نے، تیں میں روپ آیو کتھا۔
ترجمہ:
ڈھولا مارو کا حسن دیکھ کر حیرت سے پوچھنے لگا کہ اے مارو یہ تھر کا ریگستان ہے یہاں بُھرٹ کی گھاس، سینگر، کونبھٹ، کیر کے درخت اور کانٹے ہیں تجھ میں اتنا حسن کہاں سے آیا ہے ۔

کھائڑ ڈیس کھڑ ڈوکھڑو نیئڑ لیلو جان،
مارو ذات بھٹیانی، ڈھولو زات چوہان۔
ترجمہ:
کھائڑ کا علاقہ خشک گھاس والا اور تکلیف دہ ہے، نیئڑ کا علاقہ سر سبز ہے، مارو ذات کی بھٹیانی اور ڈھولو ذات کا چوہان ہے۔

ڈھولے جانیو بجلی ،مارو جانیو میہہ،
چیار آنکھیں ایکت بھئی، سپنے دھویو نیہہ۔
ترجمہ؛

بھارومل امرانی شاعر لیکھک اور ماحولیاتی کارکن ہیں، ان کا ای میل ایڈریس ہے۔

Bharumal.amrani5@gmail.com

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More