شعر کہنے سے پہلے دل کی آواز سننے والا شاعر اجمل سراج
مہر الدین افضل بھائی نے ایک روز مجھے پکڑا اور سوال کیا، میرے چھوٹے بھائی سے کبھی ملے ہو؟
‘ نہیں مہر بھائی۔’
میں نے صاف گوئی سے کام لیا تو کہا کہ اچھا ملواتے ہیں۔ اگلے روز یا شاید اسی روز آرٹس لابی میں آتے جاتے پھر ملاقات ہوئی تو پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہا کہ اجمل ابھی کچھ دیر میں پہنچتا ہو گا۔ میں ایک خاص وجہ سے اسے تم سے ملانا چاہتا ہوں۔
‘ جی مہر بھائی ‘
میری سعادت مندی پر وہ خوش ہوئے اور کہا کہ ایک تو وہ تمھارے جیسا ہے۔ تم ادیب شدیب ہو اور وہ خود کو شاعر کہتا ہے۔
‘ خوب گزرے کی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو’
میں مسکرا دیا۔ کہنے لگے کہ ایک بات اور بھی ہے۔
مجھے متوجہ پا کر کہا کہ یار، گھر میں اس کی وجہ سے خوب افراتفری رہتی ہے۔ کاغذوں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ کوئی سمیٹنے کو آئے یا کاغذ کے کسی فضول پرزے کو پھینکنے لگے تو وہ طوفان اٹھا دیتا ہے۔ ایک دن کی بات ہے، اس کے ٹوٹے ہوئے جوتے کو گھر والے پھینکنے لگے تو اس نے ہنگامہ اٹھا دیا۔ کہنے لگا:
‘ ایک دن آئے گا، تم لوگ اسی جوتے کو شوق سے دیکھو گے اور اسے سنبھال سنبھال کر رکھو گے۔’
یار، میں اس کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔ مہر بھائی نے بات مکمل کی۔
‘ اللہ مہربانی کرے گا، مہر بھائی! آپ ایک بار ملوائیں تو سہی۔’
یوں پھر ایک روز اجمل سراج سے ملاقات ہو گئی۔ پہلی ملاقات تو یاد نہیں لیکن وہ ملاقات خوب یاد ہے جس روز شعبہ ابلاغ عامہ کی پرانی عمارت کے باہر دیوار سے ٹیک لگا کر ہم بیٹھ گئے اور جانے کون کون سی باتیں کیں۔ یہ ان ہی دنوں کی بات ہے، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم تازہ تازہ گزری تھی۔ عین بارہ ربیع الاول کے روز شیری، مودے اور میں نے فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ سنیما پہنچ کر اندازہ ہوا کہ اس روز تو سنیما والے بھی بہ وجہ عقیدت گھر پہ ہیں، یہ ہم ہی ہیں، بے شرمی جن کے سر پر چڑھ کر ناچ رہی ہے۔ احساس کا یہ وار کاری ثابت ہوا۔ یوں پہلی بار معلوم ہوا کہ پشیمانی کیا ہوتی ہے اور اس کا حملہ کیا غضب دھاتا ہے۔ نہیں معلوم یہ اسی کیفیت کا فیص تھا یا ویسے ہی مہربانی ہو گئی، ایک خواب نے میری قسمت بدل دی۔ اجمل سے پہلی ملاقات ہی با برکت ثابت ہوئی۔ میں اس پریشاں صورت لیکن ہنس مکھ نوجوان کو دل دے بیٹھا۔ دل کی باتیں کچھ گہری ثابت ہوئیں، پس، میں نے اسے اپنے خواب میں بھی شریک کر لیا۔ خواب سن کر اس نے غور سے میری طرف دیکھا پھر کہا کہ ایک خواب میں نے بھی دیکھ رکھا ہے۔ دیوار کا سہارا چھوڑ کر میں اس کے سامنے ہو بیٹھا اور اس سے خواب سنانے کی فرمائش کی۔
میرے اصرار پر پر اس نے پہلو بدلا، جیب سے سگریٹ نکال کر سلگائی اور مجھ پوچھا کہ تم سلیم احمد کی وہ نعت سن رکھی ہے؟
‘ کون سی؟’
میرے سوال پر اس نے نعت کے کچھ شعر سنائے:
‘
طبیعت تھی میری بہت مضمحل
کسی کام میں بھی نہ لگتا تھا دل
بہت مضطرب تھا ، بہت بے حواس
کہ مجھ کو زمانہ نہ آیا تھا راس
مرے دل میں احساسِ غم رَم گیا
غبار آئینے پر بہت جم گیا
مجھے ہو گیا تھا اک آزار سا
میں تھا اپنے اندر سے بیمار سا
یونہی کٹ رہی تھی مری زندگی
کہ اک دن نویدِ شفا مل گئی
مجھے زندگی کا پیام آ گیا
زباں پر محمدﷺ کا نام آ گیا’
اس نے یہ اشعار سنائے پھر بتایا کہ میرا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی ہے لیکن درجہ اتنا بلند نہیں البتہ میری اوقات سے بڑھ کر ہے۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوا تو میں نے خواب سنانے کی خواہش ایک بار پھر کی۔ اس نے بتایا کہ پریشانی کے ان دنوں میں ایک شام وہ تھک کر بستر پر آیا تو لیٹتے ہی نیند آ گئی۔ یہ تو معلوم نہیں کہ میں گھنٹہ بھر سویا یا اس سے بھی کم لیکن اس روز کی نیند برسوں کی نیند پر بھاری تھی لیکن یہ کیفیت تو نیند سے اٹھنے کے بعد کی ہے۔ سویا تو میں پریشانی کے عالم میں ہی تھا اور مسلسل خیالات کے پانیوں میں ڈوب ابھر رہا تھا کہ اقبال ظاہر ہوئے۔ لگتا تو یہی تھا کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی آرام کرسی پر بیٹھیں گے اور قریب رکھے حقے کا کش لگا کر سر مٹھی پر ٹکا کر گہری سوچ میں ڈوب جائیں گے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ وہ میری طرف آئے اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کہنے لگے کہ گھبراتے نہیں بچہ! اللہ بھلی کرے گا۔ اتنا کہہ کر اقبال خاموش ہوئے پھر انھیں جیسے کچھ یاد آیا ہو، کہنے لگے کہ کہتے رہنا لیکن شعر کہنے سے پہلے دل کی آواز ضرور سننا۔
اجمل سنجیدہ تو پہلے بھی تھا لیکن اپنا خواب سنا کر وہ مزید سنجیدہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ بس، وہ دن ہے اور آج کا دن، میرے کان اپنے دل پر لگے رہتے ہیں کہ مبادا میری غفلت آڑے آئے اور کوئی حکم، کوئی سرگوشی سننے سے رہ جائے۔
اجمل شعر تو اس زمانے میں بھی کہا کرتا تھا لیکن کیسے؟ یہ شاید میں بتا نہ پاؤں۔ ایک تو اس واقعے کو زمانہ بہت بیت گیا ہے، دوسرے شعر مجھے یاد بھی نہیں رہتے۔ ہاں باتیں اور واقعات مجھے خوب یاد رہتے ہیں۔
اجمل اور اقبال کے تعلق سے ایسا ہی ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے۔ گھر کا پیر ہمیشہ ہلکا ہوتا ہے، گھر والوں سے پہلے باہر والے اسے تسلیم کرتے ہیں۔ اجمل کے شعر میں تو ویسے بھی جان تھی۔ کراچی والوں نے اسے جلد تسلیم کر لیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، الطاف حسین ابھی پاکستان میں تھے اور نا پسندیدہ لوگوں کے بارے میں چٹکی بجا کر حکم صادر کیا کرتے تھے کہ اللہ کی امانت ہے، اللہ کے حوالے۔ اسی زمانے میں انھیں شعر و ادب کی سرپرستی کا شوق چرایا اور انھوں نے اپنے دولت کدے پر ایک مشاعرے کا ڈول ڈالا۔ مشاعرہ ہو چکا تو انھوں نے خطاب شروع کر دیا۔ یہ عین وہی زمانہ تھا جب پاکستان اور پاکستان سے متعلقہ ہر تصور، نظریہ اور شخصیات انھیں ایک آنکھ نہ بھاتیں۔ اپنی اسی کیفیت میں انھوں نے اقبال کے لتے بھی لیے اور دل کھول کر لیے۔ اجمل کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا۔ کچھ دیر تو اس نے برداشت کیا پھر اس سے رہا نہ گیا، اس نے کہا کہ کیا یہی بکواس سننے کے لیے ہمیں یہاں بلایا گیا ہے۔ اس زمانے میں نائین زیرو کے کارکنان قضا و قدر بڑے حساس، گوش بر آواز اور پھرتیلے ہوا کرتے تھے۔ آن واحد میں انھوں نے کچھ ایسا پھندا ڈالا کہ ایک بڑے اسٹیج کے کنارے پر بیٹھا ہوا اجمل یکایک میں غائب ہو گیا۔ دیگر شعرا کے علاوہ عبید اللہ علیم بھی مشاعرے میں موجود تھے۔ وہ فوراً متحرک ہوئے، یوں اجمل کی جان بخشی ہو سکی۔ ورنہ جانے کیا قیامت بیت جاتی۔ لرزا دینے والے اس واقعے کے دو نتیجے نکلے۔ ایک تو یہی اجمل کی جان بچ گئی، دوسرے شہر میں اسے جو نہیں جانتا تھا، وہ بھی جاننے لگا۔ ایک بات تیسری بھی ہوئی، وہ کچھ زیادہ ہی دل کی سننے لگا۔
مخدومی نصیر احمد سلیمی کے ہاں ایک شب نہاری کی محفل کے بعد محفل شعر جمی۔ اجمل بھی موجود تھا۔ شاید وہ پہلی بار تھی جب اس نے اپنی وہ معروف نظم پڑھی:
پاکستان کا ایک مقصد تھا، مقصد پاکستان نہ تھا
شعر پڑھتے ہوئے اجمل ویسے بھی جذب کی کیفیت میں ا جاتا تھا یہ نظم پڑھتے ہوئے وہ کچھ زیادہ ہی ڈوب گیا۔ یہ نظم سن کر میں اٹھ کر اس کے پاس جا بیٹھا اور کہا کہ یار، تم دل کی کچھ زیادہ نہیں سننے لگے؟ اجمل نے ایک گہرا کش لگایا اور کہا کہ یار بہت دن ہو گئے، پرانے زمانوں کی طرح اکٹھے بیٹھ کر دل کی باتیں نہیں کیں۔ اس شعری نشست کے بعد بھی اس سے کئی ملاقاتیں رہیں لیکن وہ جیسے لڑکپن میں گھنٹوں زمین پر بیٹھ کر ہم مسکوٹ کیا کرتے تھے، اس کی نوبت نہ آ سکی۔ اس کی خبر آئی تو مجھے مہر بھائی یاد آئے نیز ان کی پریشانی۔ مجھے یقین ہے کہ اجمل کی چھوڑی ہوئی بہت سی چیزیں اب انھوں نے سنبھال کر رکھی ہوں گی اور کچھ بے کار چیزوں کو وہ زیادہ سنبھال کر رکھتے ہوں گے۔
ڈاکٹر فاروق عادل