top header add
kohsar adart

سکول اور اقبال(۱)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمیل الرحمن عباسی

چند روز قبل ہمیں ایک تعلیمی  ادارے کی  افتتاحی تقریب میں شرکت    موقع ملا ۔جہاں ایک فاضل مقرر نے’’سکول ‘‘  کی عظمت بیان کرتے ہوئے  مضطر نظامی (م: ۱۹۶۹ ء ) کے درج ذیل  شعر کو    علامہ اقبال سے منسوب کیا  :

 

قسمت نوع بشر  تبدیل ہوتی ہے یہاں

ایک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں

 

ہمارے نزدیک  یہ غلطی  محض تحقیقی  نہیں بلکہ فکری  بھی ہے کہ علامہ  جدید نظام  تعلیم کو تقدس کا  وہ درجہ  نہیں دیتے جو اس شعر میں دیا گیا ہے بلکہ وہ   ’’علم کی شمع‘‘ سے محبت کے باوجود ، سکول  و کالج کی تعلیم پر اچھے خاصے تحفظات رکھتے تھے۔ ’’بانگ درا  کی نظم ’’  مسلمان اور تعلیم جدید ‘‘ کے  پہلے شعر میں انھوں  نے تعلیم کی اہمیت کرتے ہوئے اسے   جسد ملی کے فاسد خون کے اخراج اور  اس کے نتیجے میں اصلاح  کا ایک طریقہ قرار دیا ہے:

 

اس دور   میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا 

 ہے خون  فاسد کے لیے تعلیم مثل نیشتر

 

البتہ نظم کے آخر میں انھوں نے   تصور ِ تعلیم کی کوتاہی کا ذکر کیا ہے:

لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے  زبوں بختی   مری

رفتَم کہ خار از پا کَشَم محمل نہاں شُد از نظر 

   یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شُد

یعنی  گہری نظر رکھنے والے اس جدید تعلیم کو  ہماری بدقسمتی قرار دیتے  ہیں ۔میں منزل سے ذرا غافل ہو کر  پاؤں کا  کانٹا  نکالنے لگا کہ منزل مجھ سے اوجھل ہو کرسو سال دور چلی گئی۔‘‘  مطلب یہ کہ تعلیم  کے اصل مقصد  معرفت ذات اور معرفت کردگار  سے  صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم نے   مادی ضروریات  مثلا  روٹی روزی کو ترجیح دی تو ہم  اپنی منزل سے دور ہو گئے۔یہی مضمون آپ نے آسان الفاظ میں یوں  ادا کیا :

 

وہ علم نہیں  زہر ہے  احرار کے حق میں                 جس  علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کَفِ جو                   

 

اصل میں تو یہ دورِ جدید کا فتنہ ہے  کہ اس نے سب کو اندھا دھند معاشی  مسابقت میں مبتلا کر دیا ۔     چناں چہ  علامہ نے ضرب کلیم کی ایک نظم میں اس   طرف اشارہ کیا:

عصر حاضر ملک الموت ہے  تیرا جس نے                                             قبض کی روح تری دے کہ تجھے فکر معاش

 

ایک جگہ آپ نے فرمایا

 

اگرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے   

مردہ ہے فرنگی سے مانگ کے لایا ہے نَفَس

 

اقبال کے پیش رو اور مرشد، اکبر آلہ بادی  نے تعلیم اور معیشت کے گٹھ جوڑ  پر اپنے مخصوص انداز میں  عمدہ تبصرہ کیا :

پڑھ کے انگریزی میں  ’’دانا  ‘‘ہو گیا          ’’ کَم  ‘‘ کا مطلب ہی   کمانا   ہو گیا

اگرچہ جدید تعلیم   اور معاش  کی رشتہ داری ہی نے مقصودِ علم   ’’ تعلق عبد و معبود  کی معرفت ‘‘  کو بدل دیا  تھا  لیکن رہی سہی  کسر   ڈارونزم     ، میٹریلزم  وغیرہ  نے  نکال دی ۔ اکبر نے کہا:

نئی  تعلیم کوکیا واسطہ آدمیت سے    جناب ڈارون کو حضرت آدم ؑ سے کیا نسبت

 

یہی بات اقبال نے بانگ درا  کی نظم  ’’تعلیم اور اس  کے نتائج ‘‘ میں کہی ہے:

 

ہم سمجھتے تھے لائے گی فراغت تعلیم               کیا خبر تھی چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی  جلوہ گر                    لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ

 

اقبال کی مخصوص اصطلاحات میں ایک ’’جنون ‘‘ بھی ہے ۔ جس کا مطلب ہے  ’’  علم و   عشقِ حقیقی پر مبنی پختہ ایمان ‘‘  جو  دین کی سربلندی اور انسانی فلاح کے لیے انسان کو متحرک کر سکے۔ آپ کے خیال میں جدید تعلیم  انسان کو اس صفت سے محروم کر دیتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جدید تعلیم یافتہ  اشخاص کی اکثریت کو پاکستان یا مسلمان کی بہتری سے کوئی سروکار نہیں ہے ،ایک عجیب طرح کی لا تعلقی  ان میں پائی جاتی ہے۔ اور اگر کہیں گنتی کے کچھ لوگ نظر بھی آتے ہوں تو    وہ مستثنیات ہیں جو  ہر جگہ پائی جا سکتی ہیں ۔

 

ضرب کلیم میں  اسی بیگانگی  کی طرف  آپ نے اشارہ کیا ہے :

دل لرزتا   ہے    حریفانہ   کشمکش  سے ترا             زندگی موت ہے  کھو دیتی ہے جب ذوقِ خراش

اس     جنوں   سے   تجھے  تعلیم نے  بیگانہ کیا       جو یہ کہتا   تھا  خِرَد سے کہ بہانے  نہ   تراش

ضرب کلیم میں  زیر عنوان ’’  دین و تعلیم ‘‘ آپ فرماتے ہیں :

 

اور   یہ    ا ہل   کلیسا   کا    نظام  تعلیم                  ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

 

اس کی تقدی   میں محکومی و مظلومی ہے      قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

 

یعنی اپنی تہذیب ، روایت  اور زبان کو ترک کرتے ہوئے  جو قوم دوسرے کے نظام تعلیم کو اختیار کرے  وہ کبھی عروج نہیں پا سکتی ۔ پہلے  شعر میں جو سازش کا ذکر کیا گیا اس کا سراغ ضرب کلیم   کی ایک نظم میں ملتا ہے جہاں ’’لُردِ فرنگی ‘‘ (انگریز لارڈ ) بیٹے کو  دوسری قوموں کو غلام بنانے کا ’’تعلیمی  طریقہ‘‘  یوں  سکھاتا ہے   :

 

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو                                               ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر

تاثیر میں  اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب                                              سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

 

مغربی نظام تعلیم  اصل میں نو آبادیاتی نظام کا  اہم ستون  اور اب اس کا تسلسل ہے۔استعمار  ی تعلیم کو جناب اکبر نے   خوب بیان کیا :

توپ کھسکی پروفیسر  پہنچے       جب بَسولا  ہٹا  تو  رَندہ ہے

یعنی پہلے  یورپ نے توپ کے زور پر  ہندوستان فتح کیا  ۔ یہ  بسولے  یعنی کلہاڑے کا وار تھا ۔اس کے بعد  یورپی  نظام تعلیم آیا جس نے   ہندوستانی تہذیب و ثقافت  پر  ، رَندہ چلا کر اسے یورپی پیمانے پر پورا کر دیا۔ لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ ہم  اپنے نظام  تعلیم کے  ذریعے برصغیر میں  ایک ایسی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں جو چمڑی کے اعتبار سے کالی لیکن افکار و خیالات کے حوالے سے انگریز ہو ۔ پاکستانی نظام تعلیم  ، اس کے خیالات کے بالکل مطابق نکلا ہے۔ چناں چہ  یہاں  امیروں کے  تعلیمی ادارے آقا  جب کہ    غریبوں کے ادارے غلام  پیدا کر رہے ہیں ۔   اس نکتے کو شیخ اکبر کے ہاں دیکھیے:

    یہاں جو آج پھنستا ہے، وہ کل صیاد ہوتا ہے        میرے صیاد کی تعلیم کی ہے دھوم گلشن میں                                         

صیاد یعنی انگریز  کے نظام تعلیم سے گزرنے والا خود  استعمار کا غلام  ہو کرصیاد بنتا ہے اور پھر اپنے ہی ہم وطنوں کا استحصال کرتا ہے ۔اس شعر کی حقانیت کا کوئی ثبوت  ’’نئے یا پرانے پاکستان‘‘ سے بڑھ کر نہیں ہے۔

ہم  یارانِ نکتہ داں کے لیے  اقبال کا ایک قطعہ پیش کرتے ہوئے اجازت چاہتے ہیں:

 

دیکھیے چلتی  ہے مشرق کی تجارت کب تک                              شیشہ دیں کے عرض جام و سبو لیتا ہے

ہےمداوائے  جنوں نشترِ تعلیم ِ جدید                                  میرا سرجن  رگِ ملت سے لہو لیتا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More