
سب سے بری اردو، شاعر اور ادیب لکھ رہے ہیں۔جون ایلیا
سوال: نظم کو سہل پسندی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔آپ غزل گو ہیں مگر نظمیں بھی کہیں ہیں ،تو اردو نظم کو کسوٹی پر پرکھتے ہوئے کس مقام پر رکھتے ہیں؟
جواب:نظم، نثر کے مقابلے میں ہے،یہاں نظم سے مراد لی جاتی ہے پوئم،اس کا مقابلہ غزل سے ہرگز نہیں۔
سوال: بعض شعرا اردو شاعری میں غیر ملکی اصناف پر طبع آزمائی کرنے کو تن آسانی قرار دیتے ہیں اور اسے معتبر شاعری کا سا مقام نہیں دیتے،آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب: دیکھئے صاحب ۔۔۔۔ہماری اپنی تو کوئی صنف ہے ہی نہیں کیونکہ ہماری تمام اصناف مختلف جگہوں سے آئی ہیں، ہماری اصل صنف تو صرف گیت ہے۔اور وہ بھی تقریبا” ہندی سے مستعار لی گئی ہے۔ہماری زیادہ تر اصناف عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں آئی ہیں۔ ہماری اصل اصناف میں گیت،چوبولے،دوہے ہیں،جو برصغیر میں پیدا ہوئی یہ چیزیں بھی ہندی سے تعلق رکھتی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ میر کو بھی ہندی کا ہی شاعر تسلیم کیا جاتا تھا۔ کیونکہ ہماری زبان ہندی یا ہندوی کہلاتی تھی۔میں نے ایک کتاب پڑھی تھی،عربی زبان میں جس میں حاشیے پر بہت سی باتیں لکھی تھیں،ان میں ایک یہ تھا کہ” اس موقع پر ہندی شاعر داغ یہ کہتا ہے ۔یعنی 62 میں بھی داغ کو ہندی شاعر سمجھا جاتا تھا۔یہ کتاب دارالعلوم دیوبند نے شائع کی تھی۔
سوال: بعض لوگوں نے تحریک چلائی تھی کہ اردو کا رسم الخط دیوناگری (جس خط میں ہندی لکھی جاتی ہے) ہونا چاہیے،ان کے بقول اردو کے موجودہ رسم الخط میں بہت زیادہ وسعت نہیں ہے،آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب: میں اس بات سے جزوی طور پر متفق ہوں،جزوی طور پر اس لیے کہ ہمارے ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہے جو نستعلیق میں چھپ چکا ہے،اسے دیو ناگری میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔لہذا میرا خیال ہے کہ دونوں چلنا چاہئیں،دیو ناگری بھی اور نستعلق بھی۔ دیکھیں۔۔۔اردو ہندوستان کی زبان ہے، نستعلق ہمارا رسم الخط ہے اور دیوناگری ہندوستان کا مگر زبان وہی ہے یعنی اردو۔۔۔لیکن چونکہ یہاں کا حکمران طبقہ جو در خیبر کے راستے آیا تھا وہ اپنا رسم الخط لایا تھا جو عربی تھا انہوں نے یہاں کی زبان بھی اسی میں لکھی،کیونکہ وہ تو وہی جانتے تھے۔
اس کے علاوہ راجستھان اور دیگر بہت سے علاقوں میں اردو، ہندی رسم خط میں لکھی گئی یعنی دیو ناگری میں۔
سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ان دونوں میں زیادہ بہتر رسم الخط آپ کے نزدیک کون سا ہے؟
جواب: میرے نزدیک زیادہ بہتر خط دیو ناگری ہے۔اردو میں غلطی ممکن ہے کیونکہ اس میں آپ ایک ایک لفظ پر کہاں کہاں اعراب لگائیں گے۔مثلا” لفظ "محبت ” ہے۔اس کو اگر ایک ایسا قاری جو اردو سے نا بلد ہے،اور پڑھنا چاہ رہا ہے ،ہمیشہ غلط پڑھے گا جبکہ یہ صورت حال دیو ناگری میں نہیں ہے۔اسی طرح انگریزی میں بے شمار مسائل ہیں۔اردو میں لفظ ہے”بالکل”. تو ان کو کیسے صحیح پڑھا جائے گا۔کوئی اسے بال’ کل،اور کوئی” بال کل” پڑھ سکتا ہے۔لیکن اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس زبان میں اتنا قیمتی سرمایہ رقم کر چکے ہیں کہ کسی اور خط میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہے۔ہاں اگر ایسا ہوتا کہ دونوں خط رائج رہتے تو زیادہ اچھا ہوتا کیونکہ بہت سے کیا اس طرح کسی بھی تحریر شدہ مواد کا دائرہ کار بھی بڑھ جاتا۔اور آپ کا پیغام بہت زیادہ لوگوں تک پہنچ جاتا۔
اب عربی کا معاملہ ہے۔آپ سوچیں کہ عربی زبان کے ترجمے میں غلطی کیوں ہوتی ہے۔ایک آیت کا مفہوم مختلف کیوں ہوتا ہے۔حالانکہ اس میں اعراب بہت مشکل ہے۔دیکھیں لفظ ہے” تعلیم” ہمیں تعلیم ت سے سکھائی جاتی ہے۔اس لفظ میں ع ل ی کی جو شکلیں ہیں وہ ان شکلوں سے قطعی مختلف ہیں جو بچے کو سکھائی جاتی ہیں۔بلکہ یہ شکلیں تو سکھائی ہی نہیں جاتیں ۔تختی کچھ اور ہے اور شکلیں آگے چل کر کچھ اور صورت اختیار کر لیتی ہیں،یہی وجہ ہے کہ اردو بہت مشکل سے بچوں کے حلق سے اترتی ہے اور وہ طویل عرصے تک پڑھنے کے بعد بھی اچھا اردو دان نہیں بن پاتا،محبت میں سوائے ت کے تمام حرفوں کی شکلیں بدلی ہوئی ہیں۔ ح وہ ح نہیں،ب وہ ب نہیں،م وہ م نہیں،جب دیو ناگری یار و من رسم الخط کی تحریک چلی تھی تو میں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اگرچہ اس کے حق میں تھا۔مگر میں نے کہا تھا کہ ہم اپنا سارا سرمایہ منتقل کر ہی نہیں سکتے۔ لہذا میں نے جب مخالفت کی تھی آپ کو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے تمام اداکار جب ہندی فلم میں کام کرتے ہیں تو انہیں اردو کے سارے مکالمے یا تو رومن رسم الخط یا دیو ناگری رسم الخط میں لکھ کر دیے جاتے ہیں۔
سوال: ہاں مگر اس سے ان کا لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے،وہ خ،ق اور اسی قبیل کے الفاظ حلق سے نہیں نکال پاتے، تو اس میں بھی تو خرابی ہوئی نا؟
جواب: ہاں یہ خرابی ہوئی،مگر اسی خرابی کو لے کر وہ اردو زبان کو ہندی زبان کہتے ہیں،اور ہماری اردو سے مختلف کر لیتے ہیں،ان کے ہاں خون نہیں ہے، کھون ہے،قتل نہیں ہے کتل ہے،خرابی نہیں ہے کھرابی ہے۔قسمت نہیں ہے کسمت ہے،آپ سن لیں وہ قسمت کو ہمیشہ کسمت ،قتل کو کتل اور خون کو کھون کہیں گے ۔لتا جی ہیں، وہ سارے اردو گیت گاتی ہیں۔مگر سارے گیت انہیں دیو ناگری یا رومن انگریزی میں لکھ کر دیے جاتے ہیں۔ شاعر انہیں غ سے اور ق کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔بات یہ ہے کہ اپ زی ٹی وی اور ہندی ذرائع سے جو اردو سنتے ہیں اس کا دائرہ اپ کے دائرے سے زیادہ بڑا ہے۔اور وہ ساری اردو دیوناگری خط میں ہے۔اردو کو عالمی زبان ان لوگوں نے ہی ان کے چینلوں نے ہی بنایا ہے آپ نے کب بنایا ہے۔وہی تو آپ کی اردو کو دیو ناگری رسم الخط میں اور اپنی ہندی بولی میں دنیا بھر میں پھیلا رہے ہیں۔
سوال: الطاف حسین نے ہنگامہ کیا تھا پنجابی زبان نہیں "بولی” ہے۔آپ کیا کہتے ہیں، زبان اور بولی کی تعریف کیا ہے؟
جواب: غلط کہتے ہیں،پنجابی زبان بھی ہے اور بولی بھی،اصل میں بولی وہ ہے جو بازاروں میں بولی جاتی ہے،جس سے بات چیت ہوتی ہے۔بول چال میں استعمال ہوتی ہے،کوئی ادب، حکایت ،کہاوت یا شاعری نہ ہو۔۔۔وہ بولی ہے،اصل چیز بولی ہی ہوتی ہے ،جب آپ اس میں کام کریں، کوئی رسم الخط طے کر لیں اور اس رسم الخط میں بولی کے لہجے کے لحاظ سے ادب لکھا جانے لگے تو وہ زبان بن جاتی ہے ۔قدیم ترین عرب میں جب لوگ اصل زبان سیکھنا چاہتے تھے تو دیہاتوں میں چلے جاتے تھے۔ اگر آج بھی اصل زبان سیکھنا چاہتے ہیں تو دیہات میں چلے جائیں،حقیقی اردو سیکھنا ہو تو ذرا بوڑھوں سے بزرگوں سے بات کریں، آپ کو ٹھیٹ زبان مل جائے گی۔
شکیل عادل زادہ اور زاہدہ حنا اچھی اردو لکھتے ہیں۔جون ایلیا
سوال: موجودہ دور میں ادب کس ڈگر پر چل رہا ہے؟
جواب :موجودہ دور میں نثر بہت کچی بلکہ بہت بری لکھی جا رہی ہے۔آپ جائزہ لیں کہ سب سے بری اردو لکھنے والا کون ہے،ڈاکٹر ہے یا وکیل ہے یا انجینیئر تو آپ کو پتہ چلے گا کہ سب سے بری اردو، شاعر اور ادیب لکھ رہے ہیں یہ بہت افسوسناک بات ہے۔ میں بھی شاعر ہوں اور میری اردو بھی اتنی ہی خراب ہے جتنی دوسرے شاعروں کی ہے،چند لوگوں کو چھوڑ کر مجموعی طور پر اس زمانے میں بہت بری اردو لکھی جا رہی ہے۔
سوال: بہر طور کسی کی اردو تو آپ کو پسند ہوگی؟
جواب: ہاں ،چند لوگوں کی اردو اچھی ہے ،میں جن لوگوں کی اردو پسند کرتا ہوں ان کے نام لوں تو سب سے سر فہرست عزیز احمد کا نام ہے۔انتظار حسین۔۔۔ان کی صحت اور حسن بیاں بہت عمدہ ہے،اس کے علاوہ قراۃ العین حیدر ہے،اردو کی بعض غلطیوں کو چھوڑ کر ،اس کے علاوہ زاہدہ حنا ،نجم الحسن شکیل عادل زادہ ۔۔۔۔میں ان کے نام لوں گا بس یہی لوگ اچھی اردو لکھتے ہیں،باقی سب بہت بری طرح اردو کا بیڑا غرق کر رہے ہیں۔مجھے ان لوگوں کی اردو پسند ہے کیونکہ عام طور پر افسانہ نگار بڑی غلط نثر لکھ رہے ہیں۔ہاں اس کے علاوہ اسد محمد خان، وہ بڑی زندہ نثر لکھتے ہیں ۔ناول بھی فکشن بھی، ان کی تحریریں نثری شاعری ہیں، وہ محض نثر نہیں بلکہ نثری شاعری ہے۔
سوال:نثری نظم ۔۔۔۔کی بات کر لیں آج ہر دوسرا شاعر نثری نظم کہنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ کیا خیال ہے کیا آگے چل کر یہ صنف کوئی جگہ بنا پائے گی یعنی نثری نظم کا مستقبل کیا ہے؟
جواب: میرے نزدیک تو نہ اس صنف کا حال ہے اور نہ مستقبل۔۔۔اصل میں ہوا یہ ہے کہ یہ کام سب سے زیادہ آسان ہے،ہر آدمی اس پر ہی طبع آزمائی کر رہا ہے جبکہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔
جون اپنی نصف بہتر زاہدہ حنا کے ساتھ
سوال: غزل ایک زندہ صفت ہے،گزشتہ دہائیوں کی غزل پر نظر ڈالیں تو کیسا احساس ہوتا ہے،کیا شاعروں نے غزل سے انصاف کیا۔۔۔۔۔اور کیا وہ انصاف کر رہے ہیں؟
جواب: اصل میں بات یہ ہے کہ اس وقت کوئی بڑا غزل گو موجود نہیں ہے۔وہ ریاضت کسی کے پاس نہیں،وہ تیاری نہیں جس کی ضرورت ہوتی ہے،زبان تو خیر بعد کی چیزیں ہیں اصل میں کسی کی جذباتی وابستگی ہی نہیں ہے۔میں نے بتایا نا کہ میں موجودہ دور میں سب سے اچھی غزل کہہ رہا ہوں۔۔۔آپ یہ بتائیں کہ غالب کے دور میں ان کے پاس شہرت کے وہ زرائع نہیں تھے جو آج ہمارے پاس ہیں پھر۔۔۔اس کے باوجود ایک بھی بڑا شاعر سامنے نہیں آیا ۔۔۔۔اگر ہوتا تو آتا۔۔۔۔مشہور ہوتا۔۔۔۔جبکہ اس کے پاس ہر وہ ذریعہ موجود ہے جو ماضی میں کسی کے پاس نہیں تھا،میں اپنی شاعری سامنے نہیں لاتا،بہت کم شاعری سامنے لاتا ہوں،چھپواتا بھی نہیں۔
سوال: شاعری اور افسانے کے لحاظ سے پاکستان اور بھارت کا موازنہ کس انداز میں کریں گے؟
جواب: بھئی اصل میں تمام تر خامیوں کے باوجود قیام پاکستان کے بعد شاعری پاکستان میں ہی بہتر ہوئی ہے۔ہندوستان میں بہتر شاعری نہیں ہوئی۔البتہ جہاں تک افسانہ اور تنقید کا تعلق ہے تو ہندوستان ہم سے بہت آگے ہے۔اس کے علاوہ تاریخ، تنقید و تحقیق، ان میں ہندوستان نے بہت کام کیا ہے۔شاعر پاکستان میں زیادہ بہتر ہیں۔اور ان کا کام بھارت کے شاعروں سے زیادہ بہتر ہے۔
سوال: آپ نے کہا کہ نثر اچھی نہیں لکھی جا رہی،بعض حلقے کہتے ہیں کہ اردو زبان بگڑ رہی ہے آپ کا کیا خیال ہے اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟
جواب: اصل میں ہوتا کیا ہے۔۔۔جب زمانے میں غالب شاعری کر رہے تھے،اس وقت سڑک پر جو زبان بولی جا رہی تھی وہ اس زبان سے مختلف تھی جو غالب استعمال کر رہے تھے،اب بھی ہو یہ رہا ہے کہ اردو مختلف دائروں میں پھیلتی جا رہی ہے جتنا فروغ اس زمانے میں اردو کو حاصل ہوا ہے کسی زمانے میں نہیں حاصل ہوا۔آج سے دس پندرہ یا بیس ،پچیس سال پہلے اردو کا دائرہ اتنا وسیع نہیں تھا۔ پہلے اردو کے شاعر نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔کہ وہ لندن جائے گا مشاعرہ پڑھنے۔۔۔۔مثلا” غالب کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے تھے انہیں شعر سنانے لندن بلایا جائے گا۔اج اردو کہاں پہنچ گئی۔لندن پہنچ گئی ڈنمارک ،امریکہ ،عرب ممالک، امارات ۔۔۔۔کہاں کہاں نہیں پہنچ گئی،اور خاص طور پر اپ کا زی ٹی وی اس نے اردو کو کتنا پہنچایا،پاکستان کی ٹی وی کے ڈرامے۔۔۔۔دیکھیں ڈرامے میں خواہ غلطی کیوں نہ ہو بہر طور وہ اردو پھیلانے کا سبب بنی ہیں۔
سوال: اچھا یہ بتائیں کہ ٹی وی پر پیش ہونے والے ڈرامے کو ادب کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے؟
جواب: اپ نے اچھا سوال کیا۔ آغا حشر نے ڈرامے لکھے۔نام انارکلی تھا،ان کی ادبی حیثیت تھی۔ بات یہ ہے کہ ہم نے ان ڈراموں کے مسودے نہیں دیکھے،ہم نے ڈرامے سنے یا دیکھے ہیں۔اس کا اندازہ اسی وقت ہوگا جب ہم ان کے مسودوں کو دیکھیں مثلا” ہم فلم دیکھتے ہیں۔اگر اس کی کہانی کو لکھا جائے تو تب پتہ چلے گا کہ اس کی ادبی حیثیت کیا ہے۔تو یقینا” فلموں کی اکثریت کی کوئی ادبی قدر نہیں ہوگی۔بعض بہت مقبول ادبی شہ پاروں پر ڈرامے بنے۔۔۔۔تو ہم سب ڈراموں کو غیر ادبی یا ادبی نہیں کہہ سکتے۔ڈرامہ تو ظاہر ہے فنون لطیفہ اور ادب میں شامل ہے۔آپ کو معلوم ہوگا کہ یونان میں ڈرامہ ادبی اصناف میں سر فہرست رہا ہے۔وہ چھپتا تھوڑی تھا ،اسٹیج ہوتا تھا۔بالکل اسی طرح جیسے ٹی وی ڈرامہ پلے ہوتا ہے چھپتا نہیں۔لیکن یونانی ڈراموں کی ادبی اہمیت سے آپ انکار نہیں کر سکتے۔
انٹرویو کے پہلے تین حصے پڑھنے کیلئے درج ذیل لنک کھولیں
https://kohsarnews.com/33019/%d8%b2%d8%a7%db%81%d8%af%db%81-%d8%ad%d9%86%d8%a7-%d8%b3%db%92-%d8%b9%d9%84%d9%b0%db%8c%d8%ad%d8%af%da%af%db%8c-%da%a9%db%92%d8%a8%d8%b9%d8%af-18-%d8%a8%d8%b1%d8%b3-%d9%be%d8%a7%da%af%d9%84-%d9%be/