دھرنا ختم: اور بھائی، سب خیریت ہے؟
آصف محمود | ترکش | بشکریہ روزنامہ 92 نیوز
ادھر بجلی مزید مہنگی ہوئی، ادھر صالحین نے دھرنا اٹھا لیا۔امیر جماعت نہ ہوئے داغ کا دیوان ہو گیا۔
صالحین اور حکومت میں ، ایک معاہدہ ہوا۔ جناب لیاقت بلوچ اور جناب امیر العظیم کے دستخطوں سے ہونے والے اس معاہدے کے اختتام پر ایک نوٹ لکھا ہے ۔ پڑھیے اور قافلہ انقلاب کی عزیمت پر واری جائیے۔
لکھا ہے :’’ کمشنر راولپنڈی ، آر پی او راولپنڈی ، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے کوآرڈی نیشن اور مہمان داری کی بہت خوب ذمہ داری ادا کی‘‘۔
کوآرڈیشن تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ضلعی انتظامیہ کے فرائض کا حصہ ہے لیکن یہ مہمانداری جو بہت خوب ذمہ داری سے ادا ہوئی ، کس نوعیت کی تھی؟ یہ کیسی مہمان داری تھی کہ معاہدے میں باقاعدہ اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھا گیا۔یہ مہمان داری ہی تھی یا کسی نسبت عشقی کا اظہار تھا۔
مہمان داری کے اخراجات کیا کمشنر راولپنڈی ، آر پی او راولپنڈی ، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے اپنی جیب سے ادا کیے تھے کہ صالحین جذبہ بے اختیار سے ممنونیت کا اظہار کر رہے تھے؟ یا یہ مبینہ مہمانداری بھی اسی عوام کے پیسوں سے ہوئی تھی جس کے بجلی کے بل کم کرانے حضرات تشریف لائے ہوئے تھے؟ نیز یہ کہ مینیو کیا تھا ؟ چوری کھانے والے مجنوئوں کی طر ح اگر یہاں مہمانداری کا ذکر کرنا ضروری تھا تو پھر اب لازم ہے کہ اس کی تفصیل بھی عوام سے شئیر کی جائے جس کے پیسوں پر یہ مہمانداری ہوتی رہی۔
احتجاج بھی ہوتے ہیں ، مذاکرات بھی ہوتے ہیں اور معاملات بھی طے ہو جاتے ہیں لیکن آج تک کسی احتجاج کرنے والے نے ’’ بہت خوب مہمان داری‘‘ کا قصیدہ نہیں پڑھ
کس شان سے صالحین اسلام آباد کو چلے تھے ۔جیسے ،چڑھی تیوری چمن میں میر آئے۔ جب حافظ جی نے للکارا کہ میں کاغذ کا ٹکڑا لے کر واپس جانے والا نہیں ہوں تو ہم جیسوں کو بھی لگا کہ اب کی بار ایک مختلف امیر جماعت اسلامی ہے اور اب کی بار حکومت کو ایک مختلف تجربے کا سامنا ہو گا۔ لیکن معلوم یہ ہوا کہ جس طرح ڈگری ڈگری ہوتی ہے اسی طرح جماعت اسلامی جماعت اسلامی ہی ہوتی ہے۔
بجلی سستی کرانے آئی تھی ، بہت خوب ذمہ داری سے مہمان داری کرا کر گھر چلی گئی۔البتہ ایک لحاظ سے ان کی بات درست نکلی۔ وہ صرف کاغذ کا ٹکڑا لے کر واپس نہیں گئے ، مہمان داری بھی کروا کر واپس گئے۔ اب حاسدین اپنے بغض میں جو مرضی کہتے رہیں ، حقیقت یہ ہے کہ کمشنر راولپنڈی ، آر پی او راولپنڈی ، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی سے مہمان داری ، معاف کیجیے بہت خوب مہمان داری کرانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
جماعت اسلامی کے وابستگان بد ترین قسم کے رد عمل کا شکار ہیں۔ سیاسی میدان میں نا قدری نے ان کے اندر عجیب سی تلخی بھر دی ہے۔ دھرنے کے اس طرح خاتمے پر سوالات کا اٹھنا فطری امر ہے۔ ان سوالات کے جواب میں تلخ لہجوں کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تلخ لہجے آپ کو بتاتے ہیں کہ جب ہم آٓ ئے اور دھوپ میں بیٹھے رہے اور آپ نہیں نکلے تو اب تنقید کس منہ سے کر رہے ہیں، یہ آپ کو بتائیں گے کہ اچھا ہم تو چلے گئے اب آپ آ کر بیٹھ جائیے۔ یہ رویے نفسیاتی عدم توازن کا اعلان عام ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ ایک سیاسی جماعت ہیں اور آپ خالصتا عوامی مسئلے پر نکلے ہیں اور عوام کو بھی اپنا مخاطب بنا رہے ہیں تو اس طرح واپسی پر ایک باقاعدہ موقف تو عوام کے سامنے رکھیے۔ ہر وقت گلوگیر لہجوں میں حافظ نعیم الرحمن کے فضائل بیان کرنے سے گروہی سیاست کے تقاضے تو پورے ہو سکتے ہیں اس سے عوامی سیاست نہیں ہو سکتی۔عوامی سیاست کے لیے اپنے خول سے نکلنا ہو گا۔یہ خول جماعت اسلامی سے نہیں ٹوٹ رہا۔
فرید پراچہ صاحب کے فیس بک کے تازہ ترین دو سٹیٹس اس معاملے کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ارشد ندیم کی کامیابی پر وہ لکھتے ہیں: ’’ الحمد للہ ، ارشد ندیم کی تاریخی کامیابی پاکستانی قوم کو مبارک‘‘۔ اس سے ایک گھنٹہ پہلے وہ دھرنے کی’ کامیابی‘ پرا یک پوسٹ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں: ’’ الحمد للہ رب العالمین ۔ مبارک۔شکریہ۔ دعائیں امیر و قائدین و مردو خواتین و ارکان و کارکنان کے لیے‘‘۔
آپ دونوں پوسٹوں کو غور سے پڑھیے۔ ارشد ندیم کی مبارک ساری قوم کو دی گئی ہے مگر دھرنے کا شکریہ اور دعائیں صرف صالحین کے لیے ہیں۔ یعنی یہ شعوری طور پر قوم کو مخاطب ہی نہیں بنانا چاہتے۔ اور انہیں یہ شرح صدر ہے کہ ان کے دھرنے میں کوئی عام آدمی نہیں آیا ۔یہ نیک لوگوں کی وہ قوس قزح جیسی گزرگاہ تھی جہاں کسی گناہ گار عام آدمی کا کیا کام۔
جب سیاسی جماعتیں این جی اوز کی طرح چلائی جاتی ہیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر شکریے بھی صرف صالحین کے ادا ہوتے ہیں ، تحریکی گھرانوں میں رشتے کے اشتہار شائع ہوتے ہیں ۔ پھر امیر جماعت عوامی اجتماع میںاپنی حاکمیت کا حکم دیتے ہوئے دوسروں سے ماتحتی کا تقاضا فرماتے ہیں۔ گھٹن کے ماحول میں زندگی گزارنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ بظاہر عام لوگوں کے اجتماع کو بھی شوریٰ کا اجلاس سمجھ لیتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ عوام ان کی کال پر نہیں نکلے۔ بہت تھوڑی سی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ اسی کا رد عمل بھی کارکنان میں موجود ہے کہ ہم اس گرمی میں بیٹھے رہے اب ہم پر تنقید وہ کرے جو وہاں آیا ہو ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام نے منصورہ میں قاصد بھیجا تھاکہ تشریف لائیے۔
جب آپ خود آئے، آپ نے عوام کا ایک ایشو اٹھایا تو اب عوام کو اعتماد میں تو لیجیے۔ قیادت جب پر اسرار فیصلے کرے تو فرسٹریٹڈ کارکن اپنا غصہ ناقدین پر نکالتا ہے۔ ارشاد عالیہ یہ تھا کہ ڈی چوک جانا ہے، ڈی چوک کی بجائے لیاقت باغ جا بیٹھے۔ سوال ہوا تو فرمایا یہ ٹیسٹ میچ ہے ذرا میری بیٹنگ تو دیکھنا۔ اب لوگ پوچھ رہے ہیں بیٹنگ کیا کراچی کے سمندر میں ہو گی تو صالحین خفا ہو جاتے ہیں کہ کم بخت تو اس گرمی میں میچ کھیلا تھا کہ اب سوال پوچھ رہا ہے؟
یہ قیادت کا کام ہے نکلے تو دیکھ کر نکلے کہ موسم کیسا ہے؟ قیادت کا یہ بھی فرض ہے کہ نکلتے وقت پلان بی اس کے پاس ہو۔ کسی پیچیدگی کی صورت ’ سیف ایگزٹ‘ بھی سوچ رکھنا چاہیے۔ جماعت کے پاس ایسا کچھ نہیں تھا۔ اطاعت امیر ہر غلط فیصلے کا جواز نہیں بن سکتی۔ وزیر داخلہ کا دھرنے میں آ جانا سیف ایگزٹ نہیں ہے۔ بہت خوب ذمہ داری سے ہونے والی مہمان داری بھی قابل عزت ایگزٹ نہیں ہے۔
سیف ایگزٹ یہ ہو تا کہ وعدوں کے لولی پاپ کی بجائے حکومت سے کوئی بات منوا کر جاتے۔ یہاں بے قدری کا عالم یہ تھا کہ صبح حکومت نے بجلی مہنگی کر دی شام کو یہ دھرنا ختم کر گئے کہ ’‘ ہماری بات ہو گئی ہے‘۔
خیال خاطر احباب نہ ہوتا تو صالحین سے یہ ضرور پوچھتا کہ ’’ اور بھائی ، سب خیریت ہے‘‘؟۔