ایک حسین عہد کا اختتام
ایک حسین عہد کا اختتام
ایک وقت تھا جب گاؤں کے سب لوگ بس میں بیٹھ کر بازار جایا کرتے تھے۔ بس کے آنے سے پہلے ہی لوگ اپنے سٹاپ پر پہنچ کر سڑک کے اطراف ایستادہ گھنے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر آرام بھی کر لیتے اور پرندوں کے سریلے نغموں سے بھی لطف اندوز ہوتے۔ کچھ لوک اپنی سائیکلوں پر دھیرے دھیرے پیڈل مارتے کئی میل کی مسافت طے کر لیتے۔
سڑک پر چلتی بس جب اپنا مخصوص ہارن بجاتی تو گھروں میں بیٹھے لوگ جان لیتے کہ پہلا ٹائم گزر رہا ہے۔ اس ہارن کی آواز سے کسی کو اپنے یہاں مہمان آنے کی اطلاع ہوتی اور کسی کو اپنے گھر بیٹھے مہمان کو روانہ کرنے کی فکر۔
اور پھر وقت بدل گیا (یا ہم بدل گئے) سڑکیں بدل گئیں۔ لوگ بدل گئے، محبتیں بدل گئیں، بسیں بدل گئیں۔ سائیکلیں ٹھکانے لگ گئیں۔ سڑکوں کے کنارے لگے درخت کٹ گئے۔ چِڑیاں اُڑ گئیں۔ چہچہاہٹ تھم گئی۔ پیدل چلنے کے لیے بنے رستوں پر گھاس اُگ آئی۔
اور پھر گاؤں کے لوگ آپس میں بیگانے ہو گئے۔ ایک دوسرے کی پرواہ ختم ہو گئی۔ یوں ایک حسِین زمانہ اپنی تمام تر خوبصورتیاں سمیٹے ہم سے روٹھ کر چلا گیا
ایک چھوٹی سی تمنا، ایک ناممکن سا کام
بھولی بسری بستیوں میں شام کرنے کی طلب
شاہد جمیل منہاس