استاد مکرم۔۔اپ کے قرض کا بار احسان ہم کیسے اتاریں
1951ء کی بات ہے ۔ بہتر سال بیت گئے ہیں اس بات کو۔
میں نویں جماعت میں تھا اور ہاف ٹائم میں "مامے دی ہٹی” سے ایک آنے کی پاکٹ منی میں گڑ چنے لے کر باؤنڈری وال کے گھوڑے پر سوار تھا۔ میرے مقابل ادا جعفری کا بھائی، ایک کلاس فیلو، نجم الدین تھا۔ اس وقت صدیقی صاحب اندر آئے۔ وہیں سائیکل کو سٹینڈ پر کھڑا کیا ۔ ہم نے بس ایک سرسری نگاہ کی۔ سرمئی شیروانی، پتلون، جناح کیپ۔ گہری سانولی رنگت، چہرے پر ہلکے ہلکے چیچک کے داغ، متجسس چھوٹی چھوٹی آنکھیں۔ "ہیڈ ماسٹر صاحب کا آفس بتا دیجئے”۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھ کر کہا۔ میں نے جگالی کرتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا۔۔۔۔ "وہ۔۔۔ سامنے”
انہوں نے کہا ” تھینک یو”. تو مجھے ہنسی آئی۔۔کیا آدمی ہے ۔ ہاتھ سے اشارہ کر دیا تو انگلش میں کہتا ہے "تھینک یو”۔ بچوں سے ایسے کون بات کرتا ہے.
نصف صدی سے بھی زیادہ گزر جانے کے بعد معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں "تھینک یو” اور "سوری” ہی دل جیتنے کے جادو اثر منتر ہیں.
اگلے دن پہلے ہی پیریڈ میں ان کو کلاس میں دیکھا۔ وہی لباس، وہی جناح کیپ، وہی مظلوم روکھا پھیکا چہرہ جس پر چیچک کے پرانے داغ تھے ۔ ہم سب نے سر اور انکھیں گھما کے ایک دوسرے سے خاموشی کی زبان میں سوال کیا۔۔ یہ کیا چیز ہے بھئی۔۔؟ میں جانتا تھا کہ یہ نمونہ میرے منہ سے ایک لفظ سن کے تھینک یو کہہ چکا ہے ۔
نمونے نے رجسٹر اور ایک کتاب میز پر رکھ کے کہا ۔۔۔ "میں نورالحسن صدیقی ہوں۔ آپ کو انگریزی پڑھاؤں گا۔ چلیے کتاب نکالیے۔۔۔ پہلی نظم۔۔”
"ہم پڑھ چکے ہیں سر”۔ مانیٹر قاضی سعید اختر نے کہا۔
صرف سر ہلا کے انہوں نے اپنی کتا ب کھولی اور نظم شروع کر دی ” ڈیفوڈل۔ یہ ایک پھول ہوتا ہے۔۔ ورڈزورتھ حسن فطرت کا شاعر تھا۔۔۔”
میں آواز کی طلسماتی اثر انگیزی میں گم سوچتا رہا کہ پہلے والے ماسٹر نے یہی نظم پڑھاتے وقت جب یہ نہیں بتایا تھا تو آج ان کو کیا ضرورت تھی؟
جب رستم نے دو بار پیتل کی لٹکتی تھالی پر لکڑی کا ہتھوڑا مارا تو گھنٹے کی گونج کے ساتھ انگریزی ختم ہوگئی۔ پیریڈ ختم ہو گیا اور پتا ہی نہیں چلا؟ کمال ہے
صدیقی صاحب کتاب اور رجسٹر اٹھا کے کلاس سے نکل گئے ۔ چند دن گزرے تو ان کی آواز، شایستہ لہجہ اور شخصیت کا جادو جیسے مکڑی کا جالا بنتا گیا جس نے ہم سب کو جکڑ لیا۔ ایک دن اچانک وہ تیسرے پیریڈ میں بھی نمودار ہوگئے۔۔اردو پڑھائی، کیونکہ ٹیچر نہیں آئے تھے ۔۔ بعد میں ایک چھ فٹ لمبے ‘بیل’ کہلانے والے فٹ بالر نثار نے ڈیسک پر ہاتھ مار کے کہا۔۔او یار آخر یہ ہمیں اردو بھی کیوں نہیں پڑھاتے؟”
ہیڈ ماسٹر کے ریاضی والے پیریڈ میں اس نے یہی سوال دہرانے پرچار ڈنڈے کھا کے ہمیشہ والی ڈھٹائی سے کہا "تھینک یو سر۔ میں سمجھ گیا” ۔ بعد میں ہمارے ہنسنے پر وہ ہم پر ناراض ہوا، "اوئے ! میں نے تو تمہاری بات کی تھی۔ صدیقی صاحب کون سے میرے پھپھڑ لگتے ہیں ۔۔اردو اچھی پڑھائی تھی کہ نہیں؟”
اچانک ایک دن پتا چلا کہ وہ تو پہلے دن سے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر بھی ہیں کیونکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کے بعد وہی دوسرے ایم اے، بی ایڈ ہیں ۔۔ "حد ہو گییؑ یار۔۔یہ کیسا میسنا بندہ ہے۔ اپنے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں” نثار بیل نے تبصرہ کیا۔ "مگر بندہ چنگا اے”
۔۔غضب ہوا جب ایک دن صدیقی صاحب چوتھے پیریڈ میں حساب پڑھانے پہنچ گئے۔ نثار بیل نے اگلے دن ہیڈ ماسٹر صاحب سے پوچھ لیا کہ سر آپ صدیقی صاحب کو حساب کیوں نہیں پڑھانے دیتے؟ جواب میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کو آٹھ ڈنڈے دونوں ہاتھوں پر مارے تو اس نے کہا "تھینک یو سر، سمجھ گیا” اور اپنی سب سے پیچھے والی سیٹ پر جا کے بیٹھ گیا۔ ۔کسی "بچے” کو سکول سے نکال کے تعلیم سے محروم کرنا ہیڈ ماسٹر صاحب کی پالیسی نہ ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ نثار بیل گلیوں میں آوارہ پھرتا۔۔ اس نے ایم اے کیا اور لندن چلا گیا تھا، جہاں اس سے کسی امیر میم نے شادی کر لی تھی۔
صدیقی صاحب کو اسی سرمئی شیروانی اور سیاہ پتلون میں، اسی سائیکل پر آتا جاتا دیکھتے دو سال بیت گئے۔ ان کو ہنستا کبھی نہ دیکھا مگر ان کی پر شفقت صورت کی نرمی میں کبھی کبھی خفیف سی مسکراہٹ آجاتی تھی ۔ کسی نے اونچی آواز میں ان کو خفا ہوتا نہ سنا ۔ ڈنڈا ان کے پاس تھا ہی نہیں مگر مشہور ڈنڈے باز استادوں کے مقابلے میں ان کا رعب زیادہ ہی تھا۔ بہت خفا ہوتے تو کان کو ہلا کے گدی پر چپت لگاتے اور کہتے ۔۔ "گدھے ہو تم”۔۔ میں نے ایک چپت کے بعد نثار بیل کو آبدیدہ اور سر نگوں جا کے سیٹ پر بیٹھا دیکھا۔۔ ان کو وہ "تھینک یو” نہیں کہہ سکا تھا.
میں نے ایک بار انگریزی میں سات صفحات کا مضمون لکھ مارا تو صدیقی صاحب کا موڈ خراب ہو گیا۔ انہوں نے میرا کان پکڑ کے سر ہلایا اور کہا۔”نالائق جتنا زیادہ لکھو گے غلطیاں اتنی زیادہ ہوں گی”۔ گھر جا کے انہوں نے میری کاپی چیک کی تو غلطی ایک بھی نہیں تھی۔اگلی صبح کلاس میں سب کے سامنے انہوں نے مجھے پاس بلا کے کہا، "بھئی سوری اقبال۔۔کل ہم سے زیادتی ہو گئی ۔ تمہارے مضمون میں غلطی کوئی نہیں تھی۔ اور پھر پڑھانے میں مصروف ہو گئے ۔
ان کو اسی سائیکل اور اسی لباس میں آتا جاتا دیکھتے دو سال بیت گئے۔۔ سب شرط لگاتے رہے کہ ان کے پاس صرف ایک پتلون ایک شیروانی اور ایک ٹوپی ہے۔ بہت کنجوس ہیں یار۔۔ کیا کسی نے ان کو مسکراتا دیکھا ہے؟ کسی نے نہیں۔۔غصے میں دھاڑتا سنا؟ کسی نے نہیں۔۔ یہ نثار بیل ان کے سامنے بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ کیوں۔؟
میٹرک کے امتحانات یونیورسٹی لیتی تھی۔۔ صدیقی صاحب نے رات کو ایکسٹرا کلاس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے وہ مغرب کے بعد پھر سکول آتے تھے لیکن اضافی فیس کا کیا سوال ۔۔بجلی نہیں تھی تو لالکڑتی بازار سے کرایہ پر گیس کا ھنڈا لایا جاتا۔ کرایہ کا ایک روپیہ بھی صدیقی صاحب دیتے، جس میں تیل کی قیمت شامل تھی۔ کبھی پڑھنے کا موڈ نہ بنتا تو ن ہم نثار بیل سے کہتے۔۔ وہ مینٹل توڑ دیتا۔۔۔ مگر بار بار کہتا۔۔یار کسی حرامی نے صدیقی صاحب کے آگے میرا نام لیا نا تو۔۔۔ باقی جملہ خود اندازہ کریں۔۔ صدیقی صاحب نے انگریزی محاوروں کی ایک کتاب کی تعریف کی کہ چاہو تو لے لو۔ قیمت تھی ایک روپیہ۔۔ نثار بیل نے کہیں بک دیا کہ صدیقی صاحب کو کمیشن ملے گا۔۔ نہ جانے کیسے بات ان تک پہنچی۔۔ لیکن اس کے بعد ایکسٹرا کلاس ختم۔۔ وہ فیئر ویل پارٹی میں بھی نہیں آئے۔ ہماری ساری معافی تلافی منت سماجت رائیگاں گئی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ان کو میٹرک کی گروپ فوٹو میں لے آئے۔۔وہی ان کی واحد تصویر ہے ۔۔میں اتنا چھوٹا تھا کہ پیچھے کی قطاروں میں چھپ جاتا۔ مجھے آگے زمین پر عین ان کے قدموں میں جگہ ملی۔ اس تصویر میں بھی وہ اپنی سرمئی سیاہ شیروانی میں ہیں۔
میں اگلے پچیس برسوں میں ان کو دیکھنے بارہا سکول گیا۔ وہی شیروانی، وہی پاجامے جیسی پتلون، وہی جناح کیپ۔۔ سر ہر ہاتھ رکھ کر کہتے۔۔ خوش رکھو، خوش رہو۔۔ آخری بار وہ نہیں ملے۔ ان کا ایک اور شاگرد ہیڈ ماسٹر بن گیا تھا کیونکہ انہوں نے ترقی سے ہمیشہ انکار کیا۔ "انتظامی ذمہ داری کے ساتھ پڑھانا مشکل ہوتا ہے”۔ وہ کہتے تھے۔
ان کے شاگرد ہیڈ ماسٹر نے آنسوؤں کے ساتھ بتایا۔۔”وہ ریٹائر ہوئے تو پچیس ہزار ملے تھے۔۔ پانچ انہوں نے بوائز فنڈ میں دیے کہ شاید میری کسی غلطی سے سکول کا نقصان ہوا ہوگا۔۔ پھر پانچ ہزار دیے کہ بچوں کے لیے پینے کے صاف پانی کا ٹینک بنوانا ہے۔۔ باقی پندرہ ہزار میں سے تعلیمی وظیفہ جاری کرنے کے دس ہزار دے دیے۔۔ پانچ ہزار ساتھ لے گئے”
بہن کے ساتھ سٹلائٹ ٹاؤن میں رہتے تھے کیونکہ شادی نہیں کی تھی۔ ایک صبح وہ کمرے میں نہیں ملے۔۔ وہ پھر کسی کو بھی کبھی نہیں ملے۔ دن مہینے سال گزر گئے۔۔ کبھی کسی نے بتایا کہ مری میں نظر آئے تھے، ایک چٹان پر اکیلے بیٹھے تھے۔ کسی نے کھیوڑہ کی نمک کی کان میں دیکھا۔ لمبے لمبے بال۔۔ جھاڑ جھنکاڑ داڑھی۔۔مگر شیروانی، پتلون، ٹوپی وہی۔ یہ بھی سنا کہ چوکیدار نے انہیں رات کو سکول کے برآمدوں میں سرگرداں دیکھا ۔۔۔۔۔کچھ بھی مصدقہ نہیں تھا۔ آج چوتھائی صدی بعد بھی وہ لاپتہ ہیں۔ لیکن میرا یقین ہے کہ وقت پر جب فرشتہ اجل انہیں لے گیا ہوگا اوروہ بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوئے ہوں گے تو کہا ہوگا ۔
"میرے معبود۔۔تو نے دنیا میں مجھے علم کی روشنی پھیلانے کا فرض سونپا تھا۔ تو خوب جانتا ہے کہ میں نے دنیا میں رہ کے یہی ایک کام کیا۔ اسی لیے شادی کا روگ بھی نہیں پالا۔ اب کیا حکم ہے میرے لیے مالک”
کچھ عجب نہیں وہ پھر جنم لے کر کسی اور شہر، دوسرے ملک یا سیارے کی کسی آبادی میں موجود ہوں اور اپنی اسی جناح کیپ سرمئی شیروانی اور کالی پتلون میں انگریزی، حساب یا اردو۔۔ کچھ بھی پڑھا رہے ہوں۔
احمد اقبال